ہمارے معاشرے میں بہت سی تلخ اور دلخراش باتیں ہر روز ہی سامنے آتی ہیں اور ان میں ایک نہایت تکلیف دہ بات کسی لڑکی کی شادی کی عمر نکل جانا ہے۔ عمر نکل جانے میں لڑکی کا کوئی قصور بہت ہی کم اور اس معاشرے کا قصور بہت زیادہ نظر آتا ہے۔ کہیں اس کی غربت اسے عمر دراز کرتی ہے، کہیں اس کی شکل و صورت، اور کہیں بھائی بہنوں کی بڑی تعداد میں اس کی باری آنے تک عمر کافی ہوجاتی ہے۔

muslim marriage system

اگر اس سے پہلے اس کی چھوٹی بہنوں کے رشتے آجائیں اور ماں باپ غنیمت جان کر اس خوف سے شادی کردیں کہ کہیں ان کی عمریں بھی زیادہ نہ ہوجائیں تو یہ بڑی لڑکی کے لیے ایک مسئلہ بن جاتا ہے، کیونکہ اب جو بھی رشتہ آئے گا، ان کے ہزاروں چبھتے ہوئے سوالوں میں سب سے اہم سوال یہ ہوگا کہ اس کی شادی سے پہلے چھوٹی بہنوں کی شادی کیوں ہوگئی، اور سوال بھی اس طرح کیے جائیں گے گویا یہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ دال میں کچھ تو کالا ہے جو ہم سے چھپایا جارہا ہے۔
عورت کو اسلام نے کئی حقوق دیے ہیں اور حقوق کے ساتھ ساتھ بہت بڑا رتبہ بھی دیا ہے۔ عورت کے حقوق اور اس کی عزت کے بارے مِیں جو آیات اور احادیث مبارکہ موجود ہیں، ذرا سوچیں کیا ہم ان پر عمل پیرا ہیں؟ یقیناً آپ کا جواب بھی نفی میں ہوگا، یا پھر یہ کہ آٹے میں نمک برابر شاید لوگ ان پر عمل کرتے ہوں۔

دوسری شادی کی مخالفت کیوں؟

وقت پر شادی نہ ہونا خواتین میں احساسِ کمتری جیسے کئی مسائل کو جنم دیتا ہے

ہمارے خاندان میں دو شادیوں کا رواج بہت عام ہے۔ ہمارے دادا، تایا، چچا اور والد محترم نے بھی 2، 2 شادیاں کیں۔ اس کے بعد ہمارے بڑے بھائی نے تو تین شادیاں کر کے حد ہی کردی۔ ہم اپنی شادی سے پہلے ہی یہ گردانتے تھے کہ ایک شادی امی کی مرضی سے اور دوسری شادی اپنی مرضی سے کریں گے مگر شادی کی عمر قید (یعنی 14 سال) مکمل کرنے کے بعد بھی ہم ابھی تک یہ مشن مکمل نہیں کر سکے ہیں۔ وجہ وہی پرانی ہے کہ کسی کو ہم پسند نہ آئے اور شاید جس نے ہمیں پسند کیا وہ کہہ نہ سکا۔
اس موضوع پر لکھنے کا خیال اس لیے آیا کہ ابھی حال ہی میں ہم ایک شادی میں گئے تو دولہا صاحب ہماری عمر کے تھے اور لڑکی کافی کم عمر تھی۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ دولہا صاحب ایک اچھے بزنس مین ہیں اور لڑکی ان کے پاس جاب کرتی تھی۔ ہمیں اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں۔ ہم تو دو شادیوں کے سب سے بڑے حامی ہیں اور دوسرے مردوں کو بھی زور و شور سے تلقین کرتے ہیں کہ اگر آپ دوسری زوجہ افورڈ کرسکتے ہیں اور کسی کو پسند بھی کرتے ہیں تو پہلی فرصت میں یہ نیک کام کرڈالیں۔
ایک دفعہ زبردست بحث و مباحثے کے دوران ایک صاحبہ نے ہم سے پوچھا کہ اگر آپ کی ہمشیرہ کے شوہر دوسری شادی کریں تو؟ میں نے کہا خوشی سے کریں۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں بڑھتی بے راہ روی کا سبب لڑکیوں کی وقت پر شادیاں نہ ہونا اور عمر تجاوز کر جانا ہے۔ تب ہی تو پنجاب اسمبلی میں ایک خاتون ایم پی اے کی طرف سے دوسری شادی کا بل پیش کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا بھی یہی تھا کہ خواتین کی تعداد معاشرے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کا حل صرف مردوں کو دوسری شادی کی قانونی و معاشرتی اجازت دینا ہے۔
اس کا اندازہ ہمیں ابھی حال ہی میں ایک سروے کے دوران ہوا جس میں ہم ان لوگوں سے معلومات اکھٹی کر رہے تھے جو جسم فروشی کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ ہماری ملاقات گلستان جوہر میں واقع ایک فلیٹ میں چند لڑکیوں سے ہوئی جن کی عمریں لگ بھگ 30 یا اس سے زائد ہوں گی۔ وہ قطعاً یہ کام خوشی سے نہیں کر رہی تھیں بلکہ غربت اور افلاس نے ان کو گھر سے باہر نکلنے پر مجبورکیا۔
ان سے شادی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اب ہماری عمریں گزر چکی ہیں، ہم سے کون شادی کرے گا؟ شادی کرنے والے لڑکے خود تو نارمل صورت اور کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، مگر شادیاں کم عمر اور خوبصورت لڑکیوں سے کرنا چاہتے ہیں۔ لڑکیوں کی شادی نہ ہونے کا سب سے بڑا سبب نارمل صورت لڑکیوں کو نظر انداز کرنا ہے۔ یہ لڑکیاں عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ ذہنی دباؤ کا شکار ہونے لگتی ہیں، احساس کمتری کی جڑیں مضبوط ہونے لگتی ہیں اور اکیلا پن ان کو دیمک کی طرح کھانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ تمام عوامل غربت و افلاس اور گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ مل کر کسی عورت کو وہ قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتے ہیں جو وہ خیالوں میں بھی نہیں سوچ سکتی۔
ہمارے معاشرے میں بہت سی ایسی لڑکیاں ہیں جو اپنی زندگی کی 30 سے زائد بہاریں دیکھ چکی ہیں مگر ابھی تک وہ اپنے والدین کے گھر میں ہی ہیں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ جن لڑکیوں کی عمر زیادہ ہو چکی ہے وہ دوسری شادی والے مرد سے شادی کرتے ہوئے نہ کترائیں۔ کسی شادی شدہ مرد سے شادی کرنا کوئی جرم نہیں بشرطیکہ وہ آپ سے محبت کرتا ہو اور آپ اس سے محبت کرتے ہوں۔
جب میرے وطن عزیز میں بسنے والے جب دوسری شادی کرنے یا اس پر بات کرنے والے کو غلط ثابت کرنے پر تلے ہوتے ہیں اور ان کو عورتوں کی عزت و احترام کرنے کا درس دے رہے ہوتے ہیں، تو میں سوچتا ہوں اس سے زیادہ عزت اور کیا ہو گی کہ ایک مرد عورت کو اپنے نکاح میں لانا چاہتا ہے.
یورپ میں کئی خواتین صرف اس لیے شادی سے انکار کیے رکھتی ہیں، کیونکہ وہ بقول ان کے، مردوں کی غلامی میں نہیں رہنا چاہتیں۔ میں جب یورپ کے اس اخلاقی زوال کی کہانیاں انٹرنیٹ پر پڑھتا ہوں یا ان سے سنتا ہوں جو یورپ گھوم کر آچکے ہیں تو خیال آتا ہے کہ انسان کتنا آزاد خیال کیوں نہ ہوجائے، اپنے اصل کی طرف ضرور لوٹتا ہے۔ جب وہ ان تمام خرافات سے اکتا جاتا ہے تو پھر دوبارہ فطرت کے نظام کی طرف آنا چاہتا ہے اور اپنے اصل کی طرف لوٹنے کی کوشش تیز کر دیتا ہے۔
دنیا کی ہر عورت میں یہ خواہش کبھی نا کبھی ضرور اٹھتی ہے کہ وہ ماں بنیں اور ہمارا مذہب اور معاشرہ شادی کی صورت میں اس کا حل پیش کرتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ جب اسلام نے اس مسئلے کا حل ایک سے زائد شادیوں کی صورت میں پیش کیا ہے، تو کیوں نہ اس حل کو اپنایا جائے، بجائے مغرب کی دیکھا دیکھی غیر فطری راستہ اختیار کرنے اور بعد میں پچھتانے کے۔





Post a Comment

أحدث أقدم